Thursday, May 13, 2010

اے مومن عورتوں اپنی نگاہ کو نیچی رکھو،




اور کہو مومن عورتوں سے کہ نیچی رکھیں اپنی نظریں اور حفاظت کریں اپنی شرمگاہوں کی اور نہ ظاہر کریں اپنا بناو سنگھارمگر جو خود ظاہر ہوجائے اور مارے رکھیں بکل اپنی اوڑھنیوں کے اپنے سینوں پر اور نہ ظاہر کرے اپنا بناو سنگھار مگر اپنے شوہروں کے یا اپنے باپوں کے یا شوہروں کے باپوں کے یا بیٹوں کے یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے یا اپنے بھایئوں کے یا بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنی عورتوں کے یا( انکے سامنے) جو ان کی ملک یمین میں ہوں یا ان خادموں کے( سامنے) جنھیں خواہش نہ ہو (عورتوں کی )خواہ مرد ہی کیوں نہ ہوں یا ان بچوں کے سامنے جو ابھی واقف نہ ہوئے ہوں عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ۔اور نہ مار کر چلیں (زمین پر)اپنے پاوں اس طرح کہ ظاہر ہو وہ زینت جو انہوں نے چھپا رکھی ہے۔اور توبہ کرو اللہ کے حضور سب ملکر اے مومنو! تاکہ تم فلاح پا جاو

(سورت نور30۔31)

میرے بھایئوں اور معزز بہنوں یہ آیت سورت نور کی ہے جس میں واضح احکام ہیں کہ عورتوں کو کن کن سے پردہ ہے اور کس طرح اپنےجسم کو ڈھانپنا چاہیئے ۔مگر ہماری بہنوں کو کیا ہوگیا ہے جو بھارتی ثقافت میں بری طرح پھنس چکی ہیں اور ہمارا اسلام تو اتنا اچھا ہے کہ وہ تو پہلے ہی سے ہمیں اچھائی اور برائی بتادیتا ہے کہ اس طرح کرنا ہے اور اس طرح نہیں کرنا مگر ہم تو اللہ سے نعوزباللہ ڈرتے ہی نہیں ہے اور اللہ کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہیں ذرا سوچو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ ایک حدیث میں ہے کہ دوزخ میں سب سے زیادہ عورتیں جایئں گی اگر ہماری یہ مایئں اور بہنیں اللہ کے ان احکامات پر عمل کریں تو خود بھی گناہوں سے بچیں گی اور انکو ثواب بھی ہوگا مگر افسوس تو یہ ہے کہ ہمیں سب کچھ پتہ ہوتا ہے مگر ہم عمل نہیں کرتے اور جو مردوں کے کام ہے وہ عورتیں کرتی ہیں مثال کے طور پر حدیث میں ہے کہ مرد اپنا نہبند،شلوار جو ہے وہ ٹخنوں سے اوپر رکھیں اور دوسری حدیث میں ہے کہ تین قسم کے لوگ جنت میں داخل نہیں ہوں گیں ان میں سے ایک وہ ہے جو تکبر کی وجہ سے اپنی شلوار ٹخنوں سے نیچے رکھتا تھا اور زمین پر اکڑ کر چلتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر آج ہماری مائیں اور بہنیں جینز،کیپری اور نت نئے ڈیزائن کے ملبوسات زیب تن کیئے ہوتے ہیں جو ٹخنوں سے اوپر ہوتے ہیں اور اسکے برعکس مرد ٹخنوں سے نیچے رکھتے ہیں اے میرے اللہ۔۔۔! یہ کونسا دور ہے پہلے عورتیں بیوٹی پارلر جایا کرتی تھی مگر اب لڑکے جاتے ہیں اور ہر وہ چیز کرواتے ہیں جو لڑکیاں کرواتی ہیں یہاں تک کہ آئی براز بنواتے ہیں حالانکہ حدیث میں ان سب کی سخت وعید آئی ہے کہ اللہ کی بنائی ہوئی اشرف المخلوقات کو یہ لوگ خوبصورت بنائے گیں جو خود اللہ کے بنائے گئے ہیں میرے بھایئوں سوچو اور قران اور احادیث پڑھو کم سے کم اتنا تو عمل کرو جنتا تم کرسکتے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم تو ہر چیز معاشرے پر ڈال دیتے ہیں کہ آج کل کا دور ایسا ہے ہم مجبور ہیں ،کیبل ہر گھر میں ہے پھر کہتے ہیں کہ یہ ضرورت ہے میرے بھایئوں کم سے کم اپنے گھروں سے ختم کرو مجھے ایک حدیث اس پر یاد ائی کہ جب حضرت ابراھیم علیہ اسلام کو آگ میں جلایا جارہا تھا تو ایک چڑیا پانی کا ایک ایک بوند اپنی چونچ سے بھر کر لاتی اور اس آگ میں ڈالتی صبح سے شام ہوگئی اور سلسلہ جاری رہا اور یہ سب ایک کوا دیکھ رہا تھا اور بالاآخر اس نے چڑیا سے کہا کیا تمھاری ایک ایک بوند سے یہ اتنی بڑی آگ بجھ جائے گی تو چڑیا نے کہا میں جانتی ہوں کہ نہیں بجھے گی مگر قیامت کے دن جب اللہ مجھ سے پوچھے گا تو میں یہ تو کہہ سکتی ہوں کہ اے اللہ۔۔!جتنا میرے بس میں تھا انتا میں نے کیا اور میں نے اپنا حق ادا کریا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔سبحان اللہ میرے بھایئوں ہمیں بھی آج کے اس پردجالیت کے دور میں اس چڑیا جیسے جذبے کی ضرورت ہے اللہ مجھے اور آپ کو نیک ہدایت عطا فرمایئں آمین

M.Adnan.Alam

NEWS ONE CHANNEL

Adnanalam50@gmail.com

Sunday, May 9, 2010

لڑکیوں کی آزادی اور معاشرہ




آج کل آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہمارا معاشرہ کس طرف جارہا ہے اور لڑکیوں کو کتنی آزادی ہے وہ بھی آپ کے سامنے ہیں ۔اور آج کے دور میں تو لڑکیاں لڑکوں کے شانہ بشانہ چلنے کا عزم لیئے ہوئے دکھائی دیتی ہیں اور ہر جگہ چاہیئے وہ کالج ہو یونیورسٹی ہو ،آفس ہو یا کورٹ ہو ہر جگہ ہوتی ہیں ۔۔۔۔۔مگر میرے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ سب کام کرو مگر اپنی تہذیب اور اسلام کی حدود میں رہتے ہوئے کام کرو ۔۔مگر ہائے افسوس۔۔۔!کہ ہماری بہنیں،بیٹیاں جب وہ گھروں سے باہر جاتی ہیں تو اپنی تہذیب اور ثقافت گھروں پر چھوڑ کر ہی جاتی ہیں میں تنقید نہیں کررہا اور نہ یہ کہہ رہا ہوں کہ سب لڑکیاں ایک جیسی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔؟ الحمداللہ آج بھی ہماری مائیں بہنیں ایسی ہیں کہ مکمل حجاب میں رہ کر اپنا کام کرتی ہیں اور اپنے جسم کی نمائش کرنا وہ آگ میں ڈالنے کے مترادف سمجھتی ہیں اور ان کو دیکھ کر ہمیں فخر ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ اور یہ وطن واقعی اسلام کے نام پر قائم ہوا ہے اور وہ کسی سے بھی کوئی فالتو بات نہیں کرتی اور اپنے کام سے کام رکھتی ہیں اور آفس ٹائم کے بعد یا یونیورسٹی کے بعد گھر جانے کو ترجیح دیتی ہیں یہ ہمارے معاشرے کی عکاسی ہے اور دوسری طرف جسکی طرف میں اپکی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں وہ کراچی یونیورسٹی کی وہ لڑکیاں ہیں جو متوسط طبقے اور غریب طبقے سے تعلق رکھتی ہیں جب وہ پڑھنے جاتی ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ فیشن شو میں یا کیٹ واک کرنے جارہی ہیں اور ہاتھ میں موبائل رکھ کر میسج اور دکھاوا کرتی نظر آتی ہیں صرف اسلیئے کہ کوئی ہمیں دیکھے اور لفٹ دے ۔۔۔۔۔!حالانکہ اسلام میں تو لڑکیوں کو خوشبو لگانے کی بھی ممانعت ہے اسلیئے کہ اگر وہ خوشبو لگا کر گھر سے باہر نکلیں گی تو انکی خوشبو سے لوگ انکی طرف متوجہ نہ ہو۔۔۔۔!اور یہ لڑکیاں اللہ کے احکامات کو پس پردہ ڈال کر مغربی اور پڑوسی ملک کی ثقافت کو پروان چڑھارہی ہیں جالانکہ حدیث ہے کہ جو دنیا میں جسکی مشابہیت اختیار کرے گا قیامت کے دن ان ہی میں سے اٹھایا جائے گا ۔۔یا اللہ کیا ہمارے معاشرے میں ی احادیث نہیں سنائی جاتی۔۔؟ہاں کہاںٕ سنائے جائے گی جب یہ لڑکیاں یونیورسٹیوں اور لالج یا دفاتر سے گھر جاتی ہوں گی تو گھر والے یہ سمجھتے ہوں گیں کہ ہماری بیٹی تھک گئی ہے انکو آرام کرنے دو ۔۔۔۔۔۔؟اور پھر ہہی لڑکیاں جو یونیورسٹیوں میں اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ گھمنا آج کی زبان میں ڈیٹ پر جانا فخر سمجھتی ہیں اور پھر انکے دوست ہی انکے ساتھ ایسا کچھ کردیتے ہیں کہ پھر نہ چاہتے ہوئے بھہ شادی کتنا پڑتی ہے اور بعض دفعہ تو وہ لڑکے موبائل کے زریعے وہ سب ریکارڈ کرکے بلیک میل کرتے ہیں اور پھر وہ لڑکی ہر لڑکے کی حوس کا نشانہ بنتی رہتی ہے اورایک پیشہ وار کی شکل اختیار کرتی ہے مگر یہ سب کیسے ممکن ہے ۔۔۔۔۔۔؟ ظاہر سی بات ہے کوئی لڑکا اس وقت تک کسی لڑکی کے قریب نہیں جاسکتا جب تک وہ لڑکی خود نہ چاہیئے ۔۔۔۔۔۔اور یہ جو متوسط طبقے کی جو لڑکیاں ہوتی ہیں ابھیں فلموں کی طرح امیر لڑکوں کے ساتھ گھمنا اچھا لگتا ہے اور پھر اس دلدل میں دھنستی جاتی ہیں میرا سوال یہ ہے کہ میں خود ایک میڈیا سے منسلک ہوں اور میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ جو لڑکیاں حجاب میں اور پردہ کرتی ہیں اور کسی سے بات نہیں کرتی اسکی ہمارے دل میں عزت بہت بڑھ جاتی ہے اور ایک اچھا تاثر قائم ہوتا ہے اور ہم چاہتے ہوئے بھی انکو نہیں دیکھتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور مردوں کی یہ فطرت ہے کہ جو اسکن فٹ اور جسم کی نمائش کرے والی لڑکیاں جو جینس ،پینٹ شرٹ ،کیپری پہنتی ہیں تو نہ چاہتے ہوئے بھی انکو دیکھتے ہیں اور ایک تاثر قائم ہوتا ہے کہ یہ کیسی لڑکی ہے جو ہر لڑکے سے بات کرتی ہے اور اپنے اعضاء کی نمائش کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟میں نے خود ایسی لڑکیوں کو دیکھا ہے جو یونیورسٹی کے پوائینٹ میں ڈرائیوروں کے ساتھ فحاشی کرتے ہوئے نظر آئی اور نیم برہنہ حالت میں پائی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔اور انکو ذرا بھی خوف خدا نہیں ہوتا اور وہ انڈیا کے ڈرامے دیکھ دیکھ کر ہر وہ کام کرتی ہیں جو ڈرامے میں ہوتا ہے اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ اپنی خواہشات کو پورا کرنے کیئے نسل کی افزائش رکوادیتی ہیں اور ایک قسم کی بانجھ ہوجاتی ہیں جو ساری عمر نسل کی افزائش نہیں کرسکتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یااللہ ہم کہاں جارہے ہیں میری بہنوں ڈرو اس وقت سے جب اللہ کی پکڑ آجائے اور یہ سب جو آپ کرتی ہو وہ کوئی نہں مگر اللہ تو دیکھ رہا ہے اور یہ سب جو آپ کررہی ہو آپ کی بہن،بیٹی کی صورت میں آپ کے سامنے آیئگا۔۔۔۔۔اور ایس لڑکیاں آج کل کے معاشرے میں بہت زیادہ ہیں اور ان سب کی وجہ انڈیا کے ڈرامے اور موبائل ہے ۔۔۔۔۔۔خدارا حکومت کے ساتھ ساتھ والدین کو بھی نوٹس لینا چاہئے کہ انکی اولاد کیا کررہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور دوسری طرف وہ لڑکیاں بھی ہیں جو اپنے جسم کو ڈھانپ کر حجاب کے ساتھ باپردہ ہو کر گھروں سے نکلتی ہیں چاہئے وہ کالج ہو یا یونیورسٹی یا آفس ۔۔۔۔۔۔اور ان کو دیکھ کر ہمیں خود دیکھنے میں شرم آتی ہے کہ ہم اتنی باپردہ اور با حیا لڑکی کو کیوں دیکھ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اور عجیب سے محسوس ہوتا ہے اے میری بہنو۔۔۔! آپ کالج جاو یا یونیورسٹی مگر حجاب اور اپنی اخلاقی اقدار میں رہتے ہوئے کام کرو اللہ مجھے اور سب کو صراط مستقیم پر چلنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں آمین
M Adnan Alam

Friday, May 7, 2010

حوا کی بیٹیاں ،فرعون کا ظلم اور اللہ کی پکڑ







یہ 7 جولائی 2007 کا وہ دن ہے جو ہم کبھی فراموش نہیں کرسکتے ۔۔۔؟مگر افسوس کہ ہم بھول چکے ہیں کیوں کہ نہ تو یہ ویلنٹائن ڈے ہے نہ ہی مدر ڈے اور نہ ہی شارخ خان کی سالگرہ کا دن ہے نہ ہی یہ کوئی آزادانہ خیال رکھنے والوں کا دن ہے یہ تو حیا کی پیکر اور صرف اللہ کی راہ میں نکلنے والوں کو جو اس وقت کے فرعون(پرویزمشرف) اور اسکے حواریوں نے جو ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور اپنی مسجدوں کو تک نہیں چھوڑا اور بم اور گولیاں کی بوچھاڑ کردی اور مسجدوں کو چھلنی کردیا یہاں تک کہ ان معصوم حوا کی بیٹیوں جو نا محرم کو دیکھتی تک نہیں ان کو ہماری ہی پاک فوج نے بے دردی سے کچل دیا وہ ہی بیٹیاں جو یہ سمجھتی تھی کہ پاک فوج انکے بھائی ہیں اور بھایئوں نے یہ ثابت کردیا کہ وہ تو صرف حکم کی پیروی کرتے ہیں جو انکے آقا (پرویز مشرف) کا حکم ماننے سے گریز نہیں کرتے کیوں کہ وہ نعوذباللہ خدا ہے اگر یہی خوف اللہ سے ہوتا تو آج جو ہمارے ملک میں جو حالات ہیں وہ نہ ہوتے۔۔۔۔جامعہ حفصہ اور لال مسجد کی طلبہ وطالبات کا صرف یہ گناہ تھا کہ انھوں صرف ایک جسم فروش اور ایک اڈہ چلانے والوں کو صرف اسلیئے یرغمال بنایا کہ وہ یہ کام چھوڑ دیں اور صراط مستقیم پر چلیں اور انھوں نے تو صرف اس حدیث کی پیروی کی کہ(جب برائی کو دیکھو تواسکو ختم کرو اگر طاقت ہے تو طاقت سے ،ورنہ زبان سے اسکو برا بھلا کہو ورنہ سب سے ادنی درجہ اسکو دل میں برا جانو )میری ان حوا کی بیٹیوں اور وہ محمد بن قاسم کے سپوتوں نے صرف اس حدیث کی پیروی کی تھی جس کی سزا انھیں فاسفورس بم کی صورت میں ملی ۔۔۔۔۔۔۔!اور ظلم تو یہ ہے کہ جامعہ حفصہ کی 1500سے ذائد طلبہ اب تک لاپتہ ہے ۔۔۔؟ میرے بھایئوں آج ہم جن پریشانیوں کا شکار ہیں وہ ان معصوم بہنوں کی لازمی دل سے نکلی ہوئی آہ ہوگی جو اللہ نے سن لی ہے اور اسکے بعد سے ہمارا جو حشر ہوا ہے وہ آپ کے سامنے ہے ۔۔۔۔۔خوکش حملے،مہنگائی ،لوڈشیڈنگ،سی این جی،آٹا ،چینی یہاں تک کہ ہم بے بس ہوگئے ہیں جب لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر آپریشن کیا جارہا تھا تو سب ہی کہہ رہے تھے کہ اسکا انجام بہت بھیانک ہوگا اور وہ آپ کے سامنے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔کیوں کہ جب کسی باپ کی لاڈلی بیٹی اور ماں کا صحارا اور بھائی کی آنکھ کا تارا جب فاسفورس بم سے شھید کردیئے جائیں اور ستم یہ کہ انکی لاشوں کو بے دردی سے نالوں میں یا اجتماعی طور پر دفن کیا گیا اور غسل فائربریگڈ کے پانی سے دیا گیا اور باقی کا یہ پتہ ہی نہیں کہ وہ کہاں ہے تو سوچیں انکا دل کا کیا حال ہوگا اور اوپر سے یہ کہا جائے کہ وہ دھشتگرد تھی تو پھر وہ خودکش حملے نہیں تو کیا انکے پیر چومیں گے میں یہ نہیں کہہ رہا کہ خودکش حملے جائز ہیں ۔۔۔۔۔۔؟ قطعی نہیں مگر وہ لوگ کیا کریں جنکی اکلوتی اولاد کو شھید کردیا جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟اور حکومتی اعلان کے باوجود جب ان طلبہ نے گرفتاریاں پیش کی تو ان پر فائرنگ کی گئی۔ایک 13 سالہ بچہ جب گرفتاری دینے کے لیئے آیا تو اس پر فائرنگ کی گئی اور 3گولیاں لگی جو 2 آپریشن سے نکال لی گئی اور تیسری ابھی بھی اسکے دھڑ میں ہے جس سے اسکا نچلا حصہ مفلوج ہوگیا اور اس وقت کے فرعون (پرویز مشرف ) کی امریکہ آشرباد حکومت نے منافقت بھرے وعدے کئے کہ تمھارا علاج حکومتی خرچے پر کرایا جائے گا مگر 3 سال گزرنے کے باوجود تاحال اسکو کوئی علاج کا خرچہ نہیں دیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!کیا جو ملک اسلام کی بنیاد پر حاصل کیا گیا ہو وہاں اسلام کے پیروکاروں کا یہ حال کیا جاتا ہے۔۔؟ اگر اس طرح ہوتا ہے تو پھر یہ عذاب کی پہلی جھلک ہے اور ہم بھی لال مسجد اور جامعہ حفصہ کی طلبہ و طالبات کے خون میں برابر کے شریک ہیں ۔۔۔۔۔۔؟ہم ہی کہہ رہے تھت کہ وہاں اسلحہ ہے اور سرنگ ہیں ۔۔۔۔۔۔؟اور القائدہ کے لیڈر ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔؟تو کہاں تھے وہ اسلحہ کے ڈپو۔۔۔۔۔؟کہاں گئے وہ لیڈر۔۔؟ اور کیوں میڈیا کے لوگوں کو سروے نہیں کرایا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟وہاں جب کچھ صحآفیوں نے ان جگہ کی نشاندہی کی جہاں انکا کہنا تھا کہ وہاں غیر ملکی طلبہ اور لیڈر ہیں تو انکو منع کریا گیا کیونکہ وہاں تو کوئی نہیں تھا اور یہ صرف ڈالر کے حصول کے لیئے یہ سب ڈرامہ رچایا گیا جس کا خمیازہ ہم سوات آپریشن،شمالی وزیرستان آپریشن کی صورت میں بگھت رہے ہیں میرے بھائیوں ہمیں اسغفار کی ضرورت ہے اور ہر دعا میں جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے اہل خانہ کے لیئے دعا کرو کہ انھیں صبر سلیم عطا ہو آمین

M Adnan Alam
NEWSONE CHANNEL
0345.2083328

Tuesday, May 4, 2010

اللہ نہایت مہربان ہے ۔۔۔۔۔۔۔!پہچانو تو ۔۔۔۔؟


حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے۔ قیدیوں میں ایک عورت تھی جس کا سینہ دودھ سے بھرا ہوا تھا اور وہ دوڑ رہی تھی ۔اتنے میں ایک بچہ اس کو قیدیوں میں ملا ۔ اس نے جھٹ اپنے پیٹ سے لگا لیا اور اسکو دودھ پلانے لگی ۔ ہم سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم خیال کرسکتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال سکتی ہے؟ہم نے عرض کیا نہیں ،جب تک اس کو قدرت ہوگی یہ اپنے بچے کو آگ میں نہیں پھینک سکتی ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ اللہ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے جتنا یہ عورت اپنے بچے پر مہربان ہوسکتی ہے
(صحیح بخاری) 1751



میرے دوستوں یہ حدیث صحیح بخاری کی ہے اور یہ ایک اتنی پیاری حدیث ہے جو امید کی ایک کرن اور جنت میں جاننے کی راہ ہموار کرتی ہے اور آج کل کے دور میں اور ہم جیسے گناہ گاروں کے کیئے تو ایک نایاب تحفے سے کم نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگرہم اتنے مہربان اور رحمدل اللہ کو چھوڑ کر دوسروں سے مانگتے ہیں ایک اور حدیث میں ہے کہ رحمت کے 100حصے ہیں اور اللہ نے 99حصے اپنے پاس رکھے ہیں اور صرف ایک حصہ دنیا میں رکھا ہے سسبحان اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! وہ ایک حصے میں ہی ماں بیٹے سے پیار کرتی ہے اور گھوڑا اپنے بچوں کو پیار کرتا ہے تو میرے دوستوں ہم کیوں اللہ سے نہیں مانگتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟میرا اللہ تو وہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اگر میرا بندہ کرے اور توبہ کرے تو میں اسکو معاف کر دیتا ہوں ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک یہ قوم مجھ سے توبہ نہ کرے تو میں اس قوم کو تباہ کر دوں گا اور دوسری قوم کو پیدا کرو گا جو گناہ کرکے مجھ سے توبہ کرے گی سبحان اللہ اتنا شفیق اور مہربان کو ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟جو اپنے بندوں سے کہتا ہے کہ اے میرے بندے!تو ایک قدم تو میری طرف اٹھا میں دوڑ کر آوں گا ایک اور جگہ ہے کہ میری رحمت میرے غصے پر غآلب ہے میرے دوستوں یہ سب مستند احآدیث میں سے لی گئ حدیثیں ہیں مگر اللہ نے کہا میرے بندوں شرک سے بچو باقی میں سب گناہ معاف کردوں گا میرے دوستوں موجودہ حالات میں صرف اور صرف ایک ہی حل ہے کہ ہم کثرت سے استغفار کریں اور ایک اور بات کہ اللہ تو غفورورحیم ہے وہ حقوق اللہ تو معاف کرسکتا ہے مگر حقوق العباد جو بندوں کے حقوق ہیں وہ جب تک معاف نہیں ہوں گیں جب تک وہ بندہ خود معاف نہ کریں تو میرے بھایئوں غیبت،برائی ،حسد اور کسی کے عیب جوئی سے بچو اللہ مجھے اور ہر مسلمان کو گناہ سے بچنے اور دین کے کاموں کو فروغ دینے کی توفیق عطا فرمایئں (آمین)
M Adnan Alam
NEWSONE CHANNEL
03452083328

Sunday, May 2, 2010

معاشرہ اور عورتیں



اسلام و علیکم معزز بھایئوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! آج کل کا دور مشینی دور ہے اور اس دور میں زندگی کو گزارنا بہیت مشکل ہوگیا ہے اسی لیئے آج کل لڑکیاں ،لڑکوں کے شانہ بشانہ کام کرتے ہوئے نظر آتی ہیں مگر ان میں سے بہت سی لڑکیاں مجبوری کی وجہ سے گھروں سے باہر نکلتی ہیں جو اپنے گھروں کی خود کفیل ہوتی ہیں اور ان کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ایک تو لڑکیوں کے اپنے مسائل ہوتے ہیں ان کو باہر نکل کر جب عوام کی غلیظ نگاہوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر ان کی زمہ دار یہ خود ہوتی ہیں اور یہ میرا زاتی تجربہ ہے کہ ایک تو وہ جب بس اسٹاپ پر آتی ہیں اور بس میں بیٹھتی ہیں تو تمام توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں اور انکو دیکھ کر لگتا ہے کہ انڈیا کی ثقافت کو کس طرح سے اجاگر کیا جارہا ہے ایک تو اتنی اسکن فٹنگ ہوتی ہے کہ پورا جسم نظر آرہا ہوتا ہے اور ہمیں خود شرم آجاتی ہے کہ یہ کیا اسلام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ کیا یہ حوا کی بیٹی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟


ایک پاکستان کی وہ بیٹی عافیہ صدیقی جو عدالت میں پیشی صرف اس شرط پر مشروط رکھتی ہیں کہ وہ نقاب کر کے عدالت میں پیش ہوں گی اللہ ہو اللہ اور ایک اور ایک اور نو مسلم مریم ریڈلے جو افغانستان میں رپورٹنگ کرنے گئی تھی طالبان کے حسن اخلاق سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا ان سے کسی نے پوچھا کے آپ کو حجاب میں گرمی نہیں لگتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ تو ان کا جواب سن کر ایمان تازہ ہوگیا انھوں نے کہا کہ کہ یہ گرمی جہنم کی آگ کے مقابلے میں کو ئی اہمیت نہیں رکھتی سبحان اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!واہ میرے اللہ اتنا پختہ ایمان اور ایک طرف وہ لڑکیاں جو اپنے آپ کو مسلمان اور حیا کا پیکر کہتی ہیں ان کو کیا ہوگیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ کیا یہ اپنے جسم کی نمائش کرنا چاہتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔؟میری بہنوں خداراَ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حجاب کرو اور دوزخ کا ایندھن نہ بنو ،بس میں بیٹھو تو پردہ کر کے اور جسم کو ڈھانپ کر نکلو ،نظریں جھکا کر چلو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔! مگر سب لڑکیاں ایک جیسی نہیں ہوتی میں نے خود بس کے اندر ایسی خواتین کو بھی دیکھا ہے جو نظریں جھکائے قران پڑھتے ہوئے پورا سفر گزارتی ہیں انکا بھی تو دل ہوگا کہ وہ فیشن کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ مگر وہ اپنی نفس کو مار کر اللہ کے احکامات کی پیروی کرتی ہیں