Friday, March 14, 2014

لیاری کی کہانی ،17 نکات کی زبانی




قصہ لیاری کا۔۔۔۔۔سردارعبدالرحمان بلوچ(رحمان ڈکیت ) اور ارشد پپو سے لیکر عزیز جان بلوچ اور بابا لاڈلہ تک..............





دور "رحمانی" میں کوئی نہ تھا اسکا ثانی لیاری میں،مگر نہ کوئی قاتل تھا نہ مقتول اسکے دور رحمانی میں۔۔۔۔۔
رات میں بھی دن کی سماں،بلاخوف چیل چوک سے چاکیواڑہ جانا۔۔۔۔۔۔ نہ لاڈلہ،نہ ملا،نہ پٹھان کرے پریشان ................





کھارادر میں باکڑا ہوٹل کا رات دیر تک کھلا رہنا،چہل پہل ، لوگوں کا رش یہ سب زینت تھی لیاری کی....................
نہ کہیں گولیوں کی تڑتڑاہٹ،نہ کوئی دستی بم ،نہ آوان بم حملہ ،نہ راکٹ لانچر اور نہ علاقوں پر قبضے کی جنگ........................
گروانڈ میں فٹبال کا میچ ،کہیں باکسنگ،کہیں ڈبو،کہیں ٹرکوں ،بسوں اور ویسپا میں روایتی انداز سے شادی میں شرکت کرنا......................
مہمان نوازی،حسن اخلاق،بھائی چارہ اور حقوق العباد یہ 14 سو سال پہلے کا تذکرہ نہیں بلکہ کچھ سالوں پہلے ہی کی بات تھی.........................
ایک دم سب کچھ بدل گیا،عبدالرحمان رحمان سے مل  گیا،وجہ بنی سیاسی جماعت،کیوں کہ عبدالرحمان لیاری کی ہر دلعزیز شخصیت بن گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ عبدالرحمان جو بی بی کو دھماکے کے وقت ڈبل کیبن میں سوار کرکے محفوظ مقام پر لے گیا،مگر منفاقت سیاست کا دوسرا نام ہے اور یہ وجہ بنی موت اسکی۔۔۔


پھر تاج ملا عزیر جان بلوچ کو ،جو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرتا تھا عبدالرحمان کو ،ٹرانسپورٹر سے بنا لیاری کا سردار عزیز جان بلوچ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیاری کے وسیع خدوخال اور محل وقوع کو بھانپ لیا سیاسی جماعتوں نے،اور بنیاد ڈالی غفار ذکری،بابا لاڈلہ،ملانثار،شیزار کامریڈ،جھنگو،عمر کچھی کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔


قبضے اور دولت کی جنگ میں اپنے پرائے ہوگئے،عزیز بلوچ کا دست راست اسکا ہی دشمن بن گیا،کہا لاڈلہ نے محنت ہماری،حکمرانی تمھاری ۔۔۔۔۔۔
یوں ہوئی ابتدا خون ریز کہانی کی،شاہ بیگ لین،چیل،چوک،آٹھ چوک،جھٹ پٹ مارکیٹ،جونا مسجد،چاکیواڑہ،کلاکوٹ،دھوبی گھاٹ،لیاری جنرل اسپتال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ مقامات بنے مقتل گاہ اور شروع ہوئے احتجاج اور ریلیاں،کہیں آوان،کہیں دستی بم حملہ،کہیں فائرنگ،اور کہیں لاشیں ملنے کا سلسلہ،تھم نہ سکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عزیر جان جا بیٹھا مسقط،بابا لاڈلہ،غفار ذکری بھی مکین ہوئے بلوچستان کے،مرے بیچارے عوام جو تھے رہائشی لیاری کے علاقوں کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




جاوید ناگوری،ثانیہ ناز اور قادر پٹیل صرف دیتے رہے بیانات اور کرتے رہے دعوے زبانی
ایک بار پھر جیت ہوئی سیاسی جماعتوں کی،جو بل واسطہ یا بلا واسطہ ملوث ہوئی ان لیاری کے سرداروں کی
"عدنان" آج پھر ترس رہے ہیں امن کو لیاری کے باسی ،کوئی تو ہو جو بنے آواز لیاری کی ۔۔۔۔۔۔۔۔

Wednesday, February 5, 2014

کراچی اجتماع سب اللہ سے ہوتا ہے




کراچی اجتماع سب اللہ سے ہوتا ہے

اس پر فتن اور نفسا نفسی کے دور میں اور اتنے مختصر وقت میں جس طرح کراچی اجتماع کا انعقاد کیا جاتا ہے میں حیران ہوں۔۔۔۔۔۔ اور وہ ایسی جگہ جہاں میں تو جانے کے لیئے دس بار سوچوں ،مگر اللہ کی راہ میں ارادہ کرنے سے سب کچھ آسان ہوتا چلا جاتا ہے پہلے تو میں صحافی کا کارڈ ہوتے ہوئے بھی ڈر ریا تھا کہ دوست کو کس طرح ساتھ لے کر جاوں پولیس روک نہ لے ،پھر میں نے نیت کی اور دعائیں پڑھتا پڑھتا روانہ ہوا دیکھتا ہوں کہ مجھے کہیں بھی کسی نے نہیں روکا اور اللہ کے فضل سے کراچی اجتماع میں شرکت کا موقع ملا،دور دور خدمت میں مامور چھوٹے، بڑے ، بزرگ سب کے سب ڈنڈے اٹھائے کوئی گاڑیوں کی پارکنگ کروارہا تھا کوئی راستہ بتارہا تھا کوئی پہرہ دے رہا تھا ، یعنی عجیب ماحول تھا بغیر کسی اجرت کے اتنا منظم انتظام واہ میرے خدا ( یہاں مجھے واقعی محسوس ہوا کہ سب اللہ سے ہوتا ہے )اسی شش وپنج میں اندر داخل ہوا کہیں لوگوں کا ہجوم اتنا کہ بس جیسے خانہ کعبہ میں لوگ جوک درجوک چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں بالکل اسی طرح لوگ کندھوں پر بڑے بڑے بیگ لادے ہوئے اپنے اپنے علاقے کے حلقے کی جانب رواں دواں تھے ،ایک اور قابل ذکر بات یہ کہ اجتماع کا سارا کا سارا انتظام سیکورٹی سب انفرادی طور پر کیا گیا تھا کہیں مجھے دو نالی والی بندوق یا کوئی دوسرا اسلحہ نظر نہیں آیا صرف ڈنڈے نظر آئے وہ بھی اس لیئے کہ یہ نظر آئے کہ یہ انظامیہ میں موجود ہے، اتنی دیر میں عصر کا وقت ہوگیا اور پہرے میں مامور باریش جوان آوازیں لگا رہا تھا امیر صاحب امیر صاحب نماز کا وقت ہوگیا ہے صفیں بنا لیں اور پھر کو راستے میں تھا اس نے وہیں چادر بچھائی اور نماز ادا کرنے لگ گیا ،نماز کی ادائیگی کے بعد ہم اپنی علاقے کی مسجد کے حلقے کی جانب چلے ، راستے میں جگہ ہر علاقے کی مسجد کے بینر لگے ہوئے تھے ،بالاخر ہم اپنے علاقے کی مسجد کے حلقے میں پہنچ گئے بیان سنا اور پھر مغرب کی نماز ادا کی اور تبلیغی جماعت کے امیر حاجی عبدالاوہاب صاحب کا بیان شروع ہوا ،پونے سات بجے شروع ہونے والا یہ بیان بغیر کسی رکاوٹ کے نو بجے تک ( یعنی جب تک ہم تھے  ) جاری تھا اور ایک ہی بات کہ سب اللہ سے ہوتا ہے اللہ کے غیر سے کچھ نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔ غیبت نہ کرے ، اسغفار کرے ، ہمارے زمہ پوردی دنیا کے لوگوں تک دین کا پیغام پہچانے کی زمہ داری ہے ،بدگمانی نہ کرے ، کسی میں عیب دیکھیں تو اسکے حق میں دعا کریں کہ اللہ انکے عیب دور کریں، نماز قائم کریں ، تبلیغ کو عام کرے ، اللہ کی راہ میں نکلے ، پوری دنیا کے کونے کونے میں دین کی تبلیغ کریں ، اور پھر صحابہ اکرام رضی اللہ تعالی عنہ کے واقعات ساتھ ساتھ اور کس طرح اللہ کی مدد آتی ہے یہ بیانات جاری تھے ، کون بڑا ، کون چھوٹا کون امیر کون غریب یہاں سب ایک ہی صف میں تھے سب چادر بچھائے بیٹھے تھے کسی کے لیئے کرسی یا کسی خاص جگہ کا انتظام نہ تھا اور یہی وہ بات تھی جس کی تلاش میں سب لوگ یہاں جمع تھے ماشاء کراچی اجتماع میں بس یہی باتیں ہر لمحے میری سماعت کو سنائی دیتی رہیں ، رات ہوئی تو روشنی کا انتظام تھا ، وضو خانے ، بیت الاخلاء جگہ جگہ لوگوں کے لیئے بنائے گئے تھے ، پارکنگ میں وہ چھوٹے بچے جنھیں یہ روشن خیال لوگ ان پڑھ کہتے ہیں ہمارے ان پولیس والوں سے جنکو کاغذات تک چیک نہیں کرنا آتے وہی بجے جو پارکنگ میں گاڑیوں کی رکھوالی کے فرائض سر انجام دے رہے تھے  بڑے اخلاق کے ساتھ کاغذات کو دیکھ کر تصدیق کرکے لوگوں کو انکی گاڑیاں لے جانے دے رہے تھے ، ایک طویل موٹر سائیکل، گاڑیوں ، بسوں ، رکشوں کی قطاریں ہی نظر آرہی تھی مگر مجال ہے کہ کہیں کوئی بدنظمی واقع ہوجائے ، واقعی میں جو اللہ کی راہ میں نکلتا ہے تو سب چیزیں خود بخود آسان ہوتی چلی جاتی ہیں ۔۔۔۔۔ میں پھر یہی کہوں گا کہ اللہ سے ہوتا ہے کسی غیر سے کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔ اللہ پاک مجھ سمیت تمام لوگوں کو دین کی سمجھ آتا فرمائے اور غیبتوں، برائیوں ، بدگمانیوں سے بچائے آمین

دعا گو عدنان عالم

Saturday, January 25, 2014

دین سے دور دنیا کے قریب




انسان بھی کیا چیز ہے میں نے بہت سوچا اس بارے میں اور پھر میں اسی نتیجے میں پہنچا کہ ہمارا کل اثاثہ دین اسلام ہے،موت برحق اور کسی نے کیا خوب کہا کہ جو تم نے پہنا ہوا ہے اور جو تمھارے پیٹ میں ہے اور جو تمھارے اعمال ہے وہی تمھارا سرمایہ ہے باقی تمھارا گھر، تمھاری جائیداد ،تمھارے دوست یہ  تمھارے نہیں ( کیوں کہ مرنے کے بعد جو پیٹ میں ہے وہی اپکے ساتھ جائے ،جو اعمال ہے وہی مرنے کے بعد کام آئیں گیں) جاب سے جانے کے بعد میں اکثر یہ سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ کس طرح اخراجات پورے ہوں گیں میرے اور مستقبل کیا ہوگا ؟ بیوی کا کیا ہوگا ، بی سی کس طرح دوں گا، موٹر سائیکل میں کام ہے ، پیٹرول کے پیسے پورے نہیں ہوتے وغیرہ وغیرہ مگر یہ کبھی نہیں سوچتا کہ ایک پل کے بعد میرے موت آئے گئی تو قبر کی بھی میں نے تیاری کی ہے یا نہیں۔۔۔؟ مگر میں اس سے غافل ان ہی سوچ میں گم رہتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔جب دوست یار سے ملو تو وہ بھی یہی شکوہ لیئے نظر آتے ہیں مگر جب بھی میں اللہ والوں کے پاس جاو اور انکے نورانی چمکتے چہرے دیکھوں تو مجھے آدھا سکوان اور پریشانی دور ہوجاتی ہے اور انکو ہشاش بشاش دیکھ کر لگتا ہے کہ انکی لاکھ دو لاکھ روپے تنخواہ ہوگی مگر جب ان سے پوچھو تو سب سے پہلے وہ گفتگو کا آغاز ہی بسم اللہ سے کرتے ہیں بھر گفتگو کے درمیان انشاء اللہ ، ماشاءللہ، شکرا لحمداللہ ، جزاک اللہ کے جملے ہمیں سننے کو ملتے ہیں تو اللہ پھر انکو شکرا گزار بندوں کو کیوں کر مصیبت میں مبتلا کرے گا ۔۔۔؟ اور رہی مجھ سمیت دنیاوی لوگوں خاص کر میڈیا کے لوگوں کی بات تو ہم تو بات ہی ناشکری سے شروع کرتے ہیں پھر نعوزباللہ اللہ سے نامیدی کی باتیں کرتے ہیں کہ ارے میری تو قسمت ہی خراب ہے ، ہمیں اللہ کیوں دے گا ، ہم گناہ گار ہے،وہ دیکھ اسکی کسی قسمت ہے کہاں پہنچ گیا ، میں نے ہی سیکھایا تھا، پرچی سے گیا ہوگا  فلاں ہم فلاں ،،،،، تو کیوں کر اللہ ہمیں سکون اور ہمارے رزق میں برکت دے گا ،،،،؟ آج میں جب پریشان ہوتا ہوں یا زہنی دباو ہوتا ہے تو صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ اور تابعین اور تبہ تابعین کی زندگی کے واقعات کو پڑھ کر سوچتا ہوں کہ میں تو اس قابل بھی نہیں کہ مجھے دو وقت کی روٹی ملے ۔۔۔؟ کیوں کہ نہ تو اللہ کے حکم پر عمل کرتے ہیں اور نہ ہی جس کام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ان سے روکتے ہیں مگر اللہ کتنا غفورو رحیم ہے کہ اتنی نافرمانی کرنے پر بھی ہمیں بھوکا سونے نہیں دیتا ، اچھا کپڑا،اچھا کھانا، اچھا گھر  سب کچھ تو ہے ہمارے پاس  مگر پھر بھی لب پر شکوہ شکایتیں،پھر بھی امید یہ رکھتے ہیں کہ مرنے کے بعد آنکھ ہماری جنت میں کھلے، نماز،روزہ،زکوتہ،حج،جہاد، حقوق اللہ،حقوق العباد ادا نہیں کرتے اور دعوی مسلمان ہونے کا کرتے ہیں۔۔۔۔ شرک و بدعت ہم چھوڑتے نہیں اور عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہلوانا پسند کرتے ہیں،،،، ان سب باتوں کی وجہ یہ ہے کہ ہم دین سے دور اور دنیا سے قریب ہوتے چلے جارہے ہیں ۔۔۔۔آج کے دور کا موازنہ کریں تو اللہ والے پانچ سے پندرہ ہزار روپے ماہانہ وظیفے میں اپنا گزر بسر کررہے ہیں اور ان کا بھی گھر ہوگا،بچے ہوں گیں، اسکول، کھانا پینا اور دیگر اخراجات مگر انکے چہرے پر شکن تک نہیں ہوتے کیوں کہ وہ اللہ پر توکل کرتے ہیں اور انھوں نے سیرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کیا ہوتا ہے کہ کس طرح ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی گزاری اور یہ امت ہر چیز ہوتے ہوئے بھی ناشکری اورناامیدی میں ڈوبی ہوئی ہے،دوسری جانب دنیاوی لوگوں جنکی تنخواہ بیس ہزار سے لاکھ تک ہوتی ہے، گھر ،گاڑی ،جائیداد ، مہنگا موبائل،مہنگے اسکول میں بچوں کی تعلیم مگر صرف سکون نہیں ہوتا اور لاکھ روپے کما کر بھی ناشکری کے کلمات لبوں پر جاری رہتے ہیں یہ سب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ توقعات اور خواہشات کو چھوڑ کر صرف ایک باریہ سوچ لو ایک پل کا پتہ نہیں کہ کب موت آجائے مگر منصوبہ بندی ہزاروں سال کی کرتے ہیں ایک روایت میں ہے کہ رزق بندے کو اس طرح ڈھونڈتا ہے جیسے موت انسان کو مگر ہم رزق کے حصول کی خاطر ساری زندگی وقف کردیتے ہیں اور اس رزق کی مالک کی عبادت کے لیئے صرف دن مقرر کرلیتے ہیں ،اگر ہم کل کی فکر چھوڑ کر آبھی کا سوچ لیں تو ہمارے معاشرے سے یہ سب چیزیں ختم ہوجائیں گی، انشاء اللہ، اللہ پاک مجھ سمیت تمام بھائیوں کو اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے والا بنادے آمین جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں یہ عبرت کی جگہ ہے تماشا نہیں ہے
دعا گو محمد عدنان عالم