Tuesday, October 11, 2011

کراچی کے حالات ،بڑے آقا اور بے حس حکمران


اگر ہم کچھ ماہ قبل پاکستان کے حالات کا جائزہ لیں تو ہمیں محسوس ہوگا کہ جو حالات پاکستان کے رہیں ہیں وہ پاکستان کی تاریخ کے بد ترین دور میں شمار ہوں گیں ، یوں تو بے شمار واقعات ہیں جو ملک کی سلامتی پر منفی اثرات چھوڑ گئے مگر سرسری نظر ڈالیں تو اجمل قصاب ، ریمنڈ ڈیوس کے واقعات نے تو ملک کی سلامتی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اسکے بعد ہم پی این ایس مہران اور سانحہ ایبٹ آباد جیسے واقعات نے تو ہمارے عسکری ذرائع اور دفاع کا بھی پول کھول دیا ،ابھی پاکستان کے شہری اس صدمے سے پوری طرح نکل ہی نکل نہیں پائے تھے کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کراچی جو پاکستان کی معشیت کا حب ہے وہاں بالکل وہی کھیل کھیلا گیا جو بھارت میں گجرات کے مسلمانوں کے ساتھ کیا گیا صرف فرق اتنا تھا کہ وہاں ہندو بلوائیوں نے مسلمان بہنوں کے گھر ویران کیئے اور انکی املاک کو نقصان پہنچایا ،یہاں تک کہ انکو انکے علاقوں سے بھاگنے پر مجبور کیا گیا بالکل اسی طرح کا کھیل کراچی میں کھیلا گیا اور یہاں سیاسی اور لسانی بنیادوں پر فسادات کروائے گئے اور بالکل وہی واقعات یہاں بھی رونما ہوئے اور رمضان کے اس مقدس مہینے میں جس میں اجروثواب کی بارش ہوتی ہے اور مغفرت کا مہینہ ہوتا ہے اس مہینے میں کراچی میں خون کی ہولی کھیلی گئی ، کبھی پٹھانوں کی بستیوں میں لوگوں کے گھر اجاڑے گئے اور کبھ


ی مہاجروں کی بستیوں کو خون سے نہلایا گیا ، اب اگر غور کریں تو گجرات فسادات میں بھی پولیس صرف تماشائی بنی رہی اور کراچی میں تو پولیس کا وجود تک نظر نہیں آیا



، گجرات میں بھی جب قتل وعام عروج پر پہنچا تب پولیس نظر آئی اور کراچی میں بھی جب بڑے آقا نے فون کیا تو ہماری بے حس قیادت کو احساس ہوا کہ ہاں کراچی میں قتل و غارت جیسے واقعات رونما ہوئے ہیں مگر ہمارے بڑے آقا اسلیئے پریشان ہوگئے تھے کہ کراچی بند ہوگا تو نیٹو سپلائی بھی متاثر ہوگی اسلیئے انھوں نے مداخلت کی جبکہ ہمارے حکمران جو پیسے کے لیئے کچھ بھی کرسکتے ہیں وہ الیئے پریشان ہوئے کہ جب کراچی سے ریونیو نہیں ملے گا تو انکی جیب کا کیا بنے گا ؟ عیاشیاں کیسے ہوں گی ؟ غیر ملکی دورے کیسے ہوں گیں ؟ مگر بڑے آقا اور بے حس حکمران نے انسانی جان کی خاطر نہیں بلکہ اپنے مفاد کی خا طر کراچی میں امن کی ٹھان لی ، مگر ایک بات قابل غور ہے کہ کراچی میں جب بھی یہ واقعات رونما ہوئے ہمارے وزیر داخلہ نے کہا کہ کوئی تیسرا ہاتھ ملوث ہے ؟ اور ہم آہنی ہاتھوں سے ان سے نمٹے گیں ۔ مگر جب رینجرز کو اختیارات دیئے گئے تو ہمیں ایسا لگا کہ جیسے کراچی کے حالات کبھی خراب ہی نہیں ہوئے تھے جرائم نام کی کوئی چیز کراچی میں تھی ہی نہیں ۔ مگر کیا آلہ دین کا چراغ آگیا ہمارے حکمرانوں کے پاس ؟ یا جادوئی چھڑی آگئی ؟ کیوں کہ اگر ہماری پولیس، عدلیہ اور رینجرز میں اتنی قابلیت تھی تو وہ 300 قیمتی انسانی جانوں کے ضائع ہونے کے بعد ہی کیوں ابھری ؟ اور جب ابھی ایٹیلی جینس رپورٹ پر ٹارگٹڈ آپریشن ہورہا ہے اور انکو معلومات ہیں ان دہشت گردوں کی تو اس وقت جب گھروں کو جلایا جارہا تھا ، بسوں کو آگ لگائی جارہی تھی ، انسانی جانوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا جارہا تھا ،کتنے ہی بیٹوں کے گھر اجاڑے گئے ،کوئی یتیم ہوگیا کوئی بیوہ کوئی معذور مگر تب کوئی پولیس اور رینجرز نہیں جاگی ؟ کیا یہ صرف سیاسی پوئنٹ اسکورنگ تھی ؟ یا کسی سیایسی جماعت کو یہ باور کرانا مقصود تھا کہ کراچی میں اپنی سیاسی سرگرمیاں ختم کردو؟ یا پھر یہ کوئی بیرونی سازش تھی ؟ یا پھر اندرون سندھ آنے والے بد ترین سیلاب کی تباہ کاریوں سے نظر ہٹانے کے لیئے کراچی میں یہ خونی ڈرامہ رچایا گیا ؟ یہ وہ سوال ہیں کہ سب جاننا چاہتے ہیں ۔ دوسری طرف امریکی سیکریٹری دفاع مائیک مولن نے دیکھا کہ کراچی میں امن ہورہا ہے اور معیشت کا پہیہ پھر چل پڑا ہے تو اپنی معیاد ختم ہوتے ہی انھوں نے ایک بیان داغا کہ حقانی نیٹ ورک کو پاکستان کی اینٹیلی جینس ایجنسی کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور وہ انکی مدد سے کام کررہا ہے ۔ امریکہ کا یہ خیال تھا کہ امریکہ کا یہ بیان سچ سمجھ کر مان لیا جائے گا اور امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملکر پاکستانی حدود میں داخل ہو کر اپنی مرضی سے جیسے چاہیے کاروائی کرے مگر اس دفعہ غیر متوقع طور پر پاکستانی افواج نے دو ٹوک الفاظ میں جواب دیا کہ ہمارا حقانی نیٹ ورک سے کوئی تعلق نہیں اور اگر ہماری حدود کو نشانہ بنایا گیا تو منہ توڑ جواب دیا جائے گا یہ جواب بڑے آقا کے لیئے حیرت انگیز تھا کہ اتنی ہمت وہ بھی پاکستان میں ؟ پھر جب ہمارے بے حس حکمرانوں نے دیکھا کہ ہماری فوج نے جواب دے کر انکے اقتدار اور غیرت کو للکار دیا تو انھوں نے بھی اے پی سی بلائی اور ملکی سلامتی پر کوئی آنچ آنے کی صورت میں دو ٹوک موقف اپنایا ۔ یہ بات بتاتا چلو کہ شمالی علاقہ جات میں بد ترین زلزلے کے وقت پاکستانی عوام نے جس یکجہتی کا مظاہرہ کیا تھا وہ اس سیلاب میں نظر نہں آیا اسکی وجہ جو امداد بھیجی جاتی ہے اس میں کرپشن اور امداد کا مستحق لوگوں تک نہ پہنچنا تھا جس میں ہمارے حکمران ملوث تھے مگر مائیک مولن کے اس بیان نے پاکستانی عوام کو پھر سے ایک قوت کی صورت میں جمع کردیا جو کچھ عرصے پہلے تک سیاسی،لسانی،مذیبی فرقوں میں بٹے ہوئے تھے اور وہ طالبان جو پاکستان سے ناراض تھے انھوں نے بھی امریکہ کی دھمکی کے جواب میں پاکستان کا ساتھ دینے کا اعلان کردیا ۔ دوسری طرف اللہ کی قدرت دیکھیں کہ یہ بے حس حکمران اسلامی کلچر نہ لاسکے مگر اللہ نے ایک مچھر جسکو ڈینگی کے نام سے پکارا جاتا ہے سے وہ کام لے لیا کیوں کہ یہ مچھر فجر کے وقت کاٹتا ہے جس کی وجہ سے لوگوں نے فجر کی نماز پڑھنا شروع کردی اور پھر ہماری حوا کی بیٹیاں جو اپنی تہزیب کھو چکی تھیں اب نقاب میں اور لانگ ڈریس میں نظر آنے لگی ہیں واہ اللہ واہ کس طرح اللہ اپنا کام ایک چھوٹے سے مچر سے کرالیتا ہے سبحان اللہ ۔ اللہ اپنی طاقت کی پہت معمولی سی جھلک دکھا رہا ہے اے بے حس حکمرانوں اللہ تمھارے بغیر بھی اپنا کام لے سکتا ہے سنبھل جاو سنھبل جاو اللہ کی گرفت بہت مضبوط ہے

Wednesday, May 25, 2011

ہوشیار ! اب پاکستان کی باری ہے








دو مئی کا دن شاید پاکستان کی سلامتی ہر ایک بھیانک خواب سے کم نہ تھا جہاں امریکہ سے آئے دو ہیلی کاپٹرپاکستان کی فضائی حدود کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے داخل ہوئے اور پھر پوری دنیا میں خطرے کی علامت سمجھے جانے والے اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد کے کمپاونڈ میں ایک چالیس منٹ کے مختصر آپریشن کے بعد ہلاک کردیا گیا اور یہ کہا جاتا ہے کہ وہ گزشتہ پانچ سال سے ایبٹ آباد کے علاقے میں موجود تھے ۔۔۔۔۔۔ واہ یہ ایک فلم کہانی تو معلوم ہوتی ہے مگر حقیقت سے اسکا کوئی تعلق نہیں لگتا ۔ اب خود امریکہ کا میڈیا اور تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ اسامہ بن لادن تو تورا بورا میں مارا گیا ہے اور یہ آپریشن صرف براک اوبامہ نے آپنے آنے والے انتخابات کی وجہ سے کیا ۔ اور خود ہمارے سابقہ عسکری ذرائع بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ اسامہ بن لادن مارے جاچکے ہیں اور امریکہ کا اصل ہدف اب پاکستان ہے جہاں وہ اس طرح کی کاروائی کرکے یہ تاثر دینا چایتا ہے کہ پاکستان کی سیکورٹی ایجنسیاں اور عسکری قیادت کے بس میں کچھ نہیں ہے اور انکی یہ صلاحیت نہیں کہ وہ اپنے اثاثوں کی حفاظت کرسکے ۔۔


اور امریکہ اپنی اس پالیسی پر کافی حد تک کامیاب ہوچکا ہے ۔ جس کا مظاہرہ اس نے ایبٹ آباد میں آپریشن کیا اور پھر اسی چال چلی کہ چت بھی اسکا اور پٹ بھی ۔ اگر ہماری عسکری قیادت یہ بات تسلیم کرے کہ ہمیں اس بات کا پتہ تھا کہ اسامہ پاکستان میں ہے تو اسکا مطلب یہ تھا کہ پاکستان خود بن لادن کی سپورٹ کر رہا تھا اور اگر انکار کرے تو پھر دنیا میں نمبر ون مانے جانے والی آئی ایس آئی کی سیکورٹی کے دعوؤں کی پول کھل جاتی ہے اور یہ ہی امریکہ چاہتا تھا کہ خود آئی ایس آئی یہ تسلیم کرے کہ وہ نہ اہل ہے اور یہ بیان خود آئی ایس آئی کے سربراہ شجاع پاشا نے تسلیم کیا کہ ہاں ہم سے غلطی ہوئی ہے اور جو سزا دینا چاہیئں وہ قبول ہے ۔۔۔۔ میں ایک بات یہاں برملا کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں اپنی فوجی قیادت پر بھرپور اعتماد ہے مگر یہ بیان انکا نہیں یہ تو شجاع پاشا نے سب کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی مگر اسکے پس پردہ کیا حقائق ہیں یہ کوئی نہیں بتاتا ۔ اب وقت آگیا ہے کہ تمام حقائق سامنے لائے جائیں ۔ جب ہمارے عسکری ذرائع برملا کہتے ہیں کہ ہم ڈرون طیارے گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو وہ کیا وجوہات ہیں جو یہ صلاحیت رکھنے کے باوجود نہیں گراتے ۔۔؟ اس طرح کے بہت سے سولات ہیں جو اب قوم جاننا چاہتی ہے اگر یہ ہمارے نام نہاد جمہوری حکومت اجازت نہیں دیتی ؟ یا ان کی کوئی ڈیل ہے امریکہ سے ؟ کیوں کہ امریکہ تو برملا کہتا ہے کہ ہم ایبٹ آباد طرز کی کاروایئاں پہلے بھی کرچکے ہیں پاکستان میں تو اسکا کیا مطلب ہے ؟ ان سولات کا جواب ہمارے حکمران کیوں نہیں دیتے ؟ اگر ہمارے ملک میں کچھ ہو تو ہمارے وزراء بڑے دعوے کرتے ہیں کہ ہم دہشت گردوں کو نیست و نابود کردیں گیں مگر امریکہ جو سب کھلم کھلا کررہا ہے اس کو کیوں نہیں کہہ سکتے ؟ اس لیئے کہ ڈالر ملتے ہیں ہمیں ؟ اگر ہم ڈالر کے لیئے اپنے لوگوں کا سودا کرسکتے ہیں تو ہمارے نام نہاد حکمران کہیں اپنی سالمیت اور تنصیبات کو بھی ڈالر کے عوض بیچ نہ دیں ؟ اب میں امریکہ کی وہ پالیسی بتا رہا ہوں جو وہ پاکستان کے خلاف بھرپور اور منظم طریقے سے کررہے ہیں اور خاص طور پر ریمنڈ ڈیوس کے جانے




کے بعد ڈرون حملوں میں شدت اور ایبٹ آباد میں اسامہ کا واقعہ اور پھر گزشتہ ایک ماہ کے دوران
نيوي کے جوانوں پر دہشت گردوں کے حملے کے حوالے سے نگاہ ڈالي جائے تو ہمیں یہ اعداد و شمار ملتے ہیں جو متواتر پاک بحریہ پر کیئے جارہے ہیں 26 اپريل 2011 کو کراچي کے علاقے بلديہ ٹاون اور ڈيفنس ميں پاک بحريہ کي بسوں پر يکے بعد ديگر حملے سے چار لوگ ہلاک جبکہ 60 کے قريب زخمي ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں ميں پاک بحريہ کي ليڈي ڈاکٹرسميت دو اہلکار اور ايک راہگير شامل تھے۔ اس حادثے کے بعد
28 اپريل کو کارساز پر پي ايف ميوزيم کے قريبي پيٹرول پمپ پر پاک بحريہ کي بس کو ايک بار پھر نشانہ بنايا گيا ۔ جس ميں 5 افراد ہلاک اور 18 زخمي ہوئے تھے۔ پاکستان بحريہ پر ہونے والے ان حملوں سے ابھي شہر سنبھل بھي نہ پايا تھا کہ 22 مئي کي رات کو پي اين ايس مہران پر دہشت گردوں نے دھاوا بول ديا۔ دھماکے کے بعد ہونے والے آپريشن ميں شہر گوليوں کي آواز سے گونج اٹھا۔ فائرنگ کا نہ ختم ہونے والا يہ سلسلہ اگلے دن پونے چار بجے اختتام پزير ہوا۔ اس تمام کاروائي ميں جہاں دو پي سي تھري اورين طياروں کا نقصان ہوا وہيں قيمتي جانيں بھي ضائع ہوئيں۔ دفاع وطن کي خاطر پاکستان نيوي کے جوانوں نے دہشت گردوں کخيلاف ڈٹ کرمقابلہ کيا اورمہران بيس ميں موجود مزيد جہازوں کو تباہ ہونے سے بچايا آپريشن کے دوران سيکورٹي فورسز کے 10 جوانوں نے جام شہادت نوش کيا ۔ ان سب واقعات میں صرف یہ اشارے ملتے ہیں کہ امریکہ اب یہ کہنا چارہا ہے کہ تمھارے اثاثے محفوظ ہاتھوں میں نہیں اور یہ بہانہ بنا کر وہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے امریکہ نے بڑی چالاکی سے ہماری فوج کو اپنے ہی علاقوں میں آپریشن کے زریعے اپنے ہی لوگوں سے لڑوایا جس کا خمیازہ ہمیں بھاری قیمت میں چکانا پڑا اور اب تک ہم بھگت رہے ہیں کب تک ہم امریکہ کے اشاروں پر ناچتے رہیں گیں ؟ اب اس بات کی ضرورت ہے کہ تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں اور موجودہ اور سابقہ عسکری قیادت مل کر اپنی ایک جامع پالیسی بنائے اور اس دفعہ میڈیا اور قوم کے سامنے متفقہ طور پر ایک پالیسی بیان جاری کریں اگر اب بھی ہم نے سخت موقف نہ اپنایا تو پھر ایک اور ایبٹ آباد آپریشن اور سانحہ پی این ایس مہران جیسے واقعات ہمارے ملک کا مقدر بنتے رہیں گیں ۔ اللہ ہماری فوج کو سازشوں اور باطل قوتوں کے شر سے بچائے آمین

Tuesday, February 22, 2011

بارہ ربیع اول ،بدعت یا عید میلاد انبی




چودہ سو سال پہلے بارہ ربیع اول مدینہ میں قیامت کا عالم تھا ۔یہ وہ دن تھا جب صحابہ رضی اللہ تعالٰی کے کلیجے غم سے پھٹ گئے ،جب دنیا سے وحی کا سلسلہ ختم ہوگیا ،جب مراد نبی حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی اپنے ہوش کھو بیٹھے اور زمین پکار اٹھی کے سوائے ابلیس کے جہاں میں سبھی تو غم میں ڈوبے ہوئے ہیں مگر کفار اور منافقین میں عید کا سماں تھا اور آج کيا ہورہا ہے وہ بھي آپ سب ک سامنے ہے کہ کس طرح اس دن ايک عجيب سا شور ہورہا ہوتا ہے آپ اس دن ٹھيک سے نماز نہيں پڑھ سکتے نہ اللہ کا زکر کرسکتے ہيں کيوں کہ جيسے ہي نماز کا وقت ہو تو کبھي ايکو ساونڈ پر نعتيں وہ بھي ميوزک اور شرک سے بھري ہماري سماعت کو متاثر کررہي ہوتي ہيں تو کبھي عاشق رسول موٹر سائيکل سوار کے سلنسر کي آواز آرہي ہوتي ہے کيا يہ اسلام ہے؟ کيا ہمارے صحابہ اور ہمارے نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي يہ تعليمات ہيں کہ پورے سال ايک دن ميرا مناؤ اور نعوزباللہ سب کي عبادت کو خراب کرو ؟ کيا صديق اکبررضي اللہ عنہ نے کبھي عيد منائي ؟ کيا مراد نبي حضرت عمررضي اللہ عنہ نے عيد منائي؟کيا حضرت عثمان رضي اللہ عنہ نے عيد منائي ؟کيا حضرت علي رضي اللہ عنہ نے عيد منائي ؟ يا انکے بعد صحابہ نے منائي ؟ کيا تابعين اور تبہ تابعين نے منائي ؟ جب ہميں حديث سے نہيں ملتا کے عيد نہيں منائي تو ہم کيوں اس عيد کو مناتے ہيں کيا نعوز باللہ صحابہ عا شق رسول نہيں تھے ؟يا آج کے مولوي معاذاللہ صحابہ سے زيادہ علم رکھتے ہيں مگران کو سمجھاؤ تو کہتے ہيں تم گستاخ رسول ہو تم وہابي ہو تم سے بات کرنا ايمان خراب کرنے کے برابر ہے ۔۔۔۔! يا اللہ مجھے آپ صلي اللہ عليہ وسلم کا زمانہ ياد آگيا کہ وہ جب مشريکين مکہ کو سمجھاتے تھے تو وہ يہي الفاظ کہتے تھے جو آج کے نام نہاد عاشق رسول کہتے ہيں ميرا بالکل يہ مقصد نہيں کہ ہم انکے برابر ہے ہم تو انکي خاک کے برابر بھي نہيں مگر پھر يہ اسي بات لکھتے ہيں جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں اور ایسی مثالیں پیش کرتے ہيں کہ بہت حیرت ہوتی ہے کہ پہلے کے دور ميں ہوئي جہاز نہيں تھا اور اج ہم استعمال کرتے ہيں يہ بھي بدعت ہے پہلے آپ صلي اللہ عليہ وسلم عمامہ پہنتے تھے اور آج ٹوپي پہنتے ہيں يہ بھي بدعت ہے يا اللہ انکي عقلوں کو کيا ہوگيا ہے کہ يہ جہاز ميں ہم سفر کرتے ہيں اسے ثواب سمجھ کر يا دين کا حصہ سمجھ کر نہيں کرتے اور انکا دين سے تعلق نہيں ميرے بھائي دين کے اندر نيا اضافہ بدعت کہلاتا ہے ،شاید کہ وہ عشق نبی میں يہ سب کرتے ہين مگر میرے بھائی آپ کو صحابہ رضی اللہ تعالٰی جیسے عاشق نہیں ہوسکتے جنھوں نے اپنی ساری زندگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وقف کردی اور انکے پیغام کو پھیلایا اور انکا پیغام شرک اور بدعت کو دور کرنا تھا کیا انھوں نے کبھی ایسی عید منائی ۔۔۔؟

ہونا تو يہ چاہيئے تھا کہ چليں مان بھي ليں کہ اس دن آپ صلي اللہ عليہ وسلم کي ولادت ہوئي تو ميرے بھائي اسکا تقاضہ تو يہ تھا کہ ہم اس دن سيرت نبي صلي اللہ عليہ وسلم کا انعقاد کرتے روزہ رکھتے اور جو آپ کي سنت ہے ان پر عمل کرتے مگر ہائے افسوس کہ ہم کو ان سب چيزوں سے دور کرديا گيا ان نام نہاد مولويوں نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
ہمارے اسلام میں صرف دو عیدیں ہوتی ہیں اور آپ ماشاءاللہ مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہیں کہ جب عید ہوتی ہے تو اسکی نماز بھی ہوتی ہے پھر اس عید کی نماز کیوں نہیں ہوتی ؟ اور جب عید ہوتی ہے تو اس دن روزہ نہیں ہوتا تو پھر روزہ کیوں رکھتے ہیں ؟ میرے بھائی میں اس بحث میں پڑنا نہیں چاہتا ہمارا مقصد تو یہ ہونا چاہیئے تھا کہ ہم جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہے اور جو تمام پیغمبر کا تھا کہ ایک اللہ کی عبادت کرو اور شریک نہ ٹھراؤ مگر ہائے افسوس کہ ہم ہر نماز میں سورت فاتحہ میں کہتے ہیں کہ اے اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور پھر بھی کبھی کسی مزار پر اولاد مانگنے جاتے ہیں یااللہ تو مجھے اور سب کو ہدایت عطا فرما اور میرے لکھنے میں کوئی غلطی یا کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو مجھے معاف فرما ئے آمين