Saturday, January 25, 2014

دین سے دور دنیا کے قریب




انسان بھی کیا چیز ہے میں نے بہت سوچا اس بارے میں اور پھر میں اسی نتیجے میں پہنچا کہ ہمارا کل اثاثہ دین اسلام ہے،موت برحق اور کسی نے کیا خوب کہا کہ جو تم نے پہنا ہوا ہے اور جو تمھارے پیٹ میں ہے اور جو تمھارے اعمال ہے وہی تمھارا سرمایہ ہے باقی تمھارا گھر، تمھاری جائیداد ،تمھارے دوست یہ  تمھارے نہیں ( کیوں کہ مرنے کے بعد جو پیٹ میں ہے وہی اپکے ساتھ جائے ،جو اعمال ہے وہی مرنے کے بعد کام آئیں گیں) جاب سے جانے کے بعد میں اکثر یہ سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ کس طرح اخراجات پورے ہوں گیں میرے اور مستقبل کیا ہوگا ؟ بیوی کا کیا ہوگا ، بی سی کس طرح دوں گا، موٹر سائیکل میں کام ہے ، پیٹرول کے پیسے پورے نہیں ہوتے وغیرہ وغیرہ مگر یہ کبھی نہیں سوچتا کہ ایک پل کے بعد میرے موت آئے گئی تو قبر کی بھی میں نے تیاری کی ہے یا نہیں۔۔۔؟ مگر میں اس سے غافل ان ہی سوچ میں گم رہتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔جب دوست یار سے ملو تو وہ بھی یہی شکوہ لیئے نظر آتے ہیں مگر جب بھی میں اللہ والوں کے پاس جاو اور انکے نورانی چمکتے چہرے دیکھوں تو مجھے آدھا سکوان اور پریشانی دور ہوجاتی ہے اور انکو ہشاش بشاش دیکھ کر لگتا ہے کہ انکی لاکھ دو لاکھ روپے تنخواہ ہوگی مگر جب ان سے پوچھو تو سب سے پہلے وہ گفتگو کا آغاز ہی بسم اللہ سے کرتے ہیں بھر گفتگو کے درمیان انشاء اللہ ، ماشاءللہ، شکرا لحمداللہ ، جزاک اللہ کے جملے ہمیں سننے کو ملتے ہیں تو اللہ پھر انکو شکرا گزار بندوں کو کیوں کر مصیبت میں مبتلا کرے گا ۔۔۔؟ اور رہی مجھ سمیت دنیاوی لوگوں خاص کر میڈیا کے لوگوں کی بات تو ہم تو بات ہی ناشکری سے شروع کرتے ہیں پھر نعوزباللہ اللہ سے نامیدی کی باتیں کرتے ہیں کہ ارے میری تو قسمت ہی خراب ہے ، ہمیں اللہ کیوں دے گا ، ہم گناہ گار ہے،وہ دیکھ اسکی کسی قسمت ہے کہاں پہنچ گیا ، میں نے ہی سیکھایا تھا، پرچی سے گیا ہوگا  فلاں ہم فلاں ،،،،، تو کیوں کر اللہ ہمیں سکون اور ہمارے رزق میں برکت دے گا ،،،،؟ آج میں جب پریشان ہوتا ہوں یا زہنی دباو ہوتا ہے تو صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ اور تابعین اور تبہ تابعین کی زندگی کے واقعات کو پڑھ کر سوچتا ہوں کہ میں تو اس قابل بھی نہیں کہ مجھے دو وقت کی روٹی ملے ۔۔۔؟ کیوں کہ نہ تو اللہ کے حکم پر عمل کرتے ہیں اور نہ ہی جس کام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ان سے روکتے ہیں مگر اللہ کتنا غفورو رحیم ہے کہ اتنی نافرمانی کرنے پر بھی ہمیں بھوکا سونے نہیں دیتا ، اچھا کپڑا،اچھا کھانا، اچھا گھر  سب کچھ تو ہے ہمارے پاس  مگر پھر بھی لب پر شکوہ شکایتیں،پھر بھی امید یہ رکھتے ہیں کہ مرنے کے بعد آنکھ ہماری جنت میں کھلے، نماز،روزہ،زکوتہ،حج،جہاد، حقوق اللہ،حقوق العباد ادا نہیں کرتے اور دعوی مسلمان ہونے کا کرتے ہیں۔۔۔۔ شرک و بدعت ہم چھوڑتے نہیں اور عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہلوانا پسند کرتے ہیں،،،، ان سب باتوں کی وجہ یہ ہے کہ ہم دین سے دور اور دنیا سے قریب ہوتے چلے جارہے ہیں ۔۔۔۔آج کے دور کا موازنہ کریں تو اللہ والے پانچ سے پندرہ ہزار روپے ماہانہ وظیفے میں اپنا گزر بسر کررہے ہیں اور ان کا بھی گھر ہوگا،بچے ہوں گیں، اسکول، کھانا پینا اور دیگر اخراجات مگر انکے چہرے پر شکن تک نہیں ہوتے کیوں کہ وہ اللہ پر توکل کرتے ہیں اور انھوں نے سیرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کیا ہوتا ہے کہ کس طرح ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی گزاری اور یہ امت ہر چیز ہوتے ہوئے بھی ناشکری اورناامیدی میں ڈوبی ہوئی ہے،دوسری جانب دنیاوی لوگوں جنکی تنخواہ بیس ہزار سے لاکھ تک ہوتی ہے، گھر ،گاڑی ،جائیداد ، مہنگا موبائل،مہنگے اسکول میں بچوں کی تعلیم مگر صرف سکون نہیں ہوتا اور لاکھ روپے کما کر بھی ناشکری کے کلمات لبوں پر جاری رہتے ہیں یہ سب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ توقعات اور خواہشات کو چھوڑ کر صرف ایک باریہ سوچ لو ایک پل کا پتہ نہیں کہ کب موت آجائے مگر منصوبہ بندی ہزاروں سال کی کرتے ہیں ایک روایت میں ہے کہ رزق بندے کو اس طرح ڈھونڈتا ہے جیسے موت انسان کو مگر ہم رزق کے حصول کی خاطر ساری زندگی وقف کردیتے ہیں اور اس رزق کی مالک کی عبادت کے لیئے صرف دن مقرر کرلیتے ہیں ،اگر ہم کل کی فکر چھوڑ کر آبھی کا سوچ لیں تو ہمارے معاشرے سے یہ سب چیزیں ختم ہوجائیں گی، انشاء اللہ، اللہ پاک مجھ سمیت تمام بھائیوں کو اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے والا بنادے آمین جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں یہ عبرت کی جگہ ہے تماشا نہیں ہے
دعا گو محمد عدنان عالم