تبديلي آگئي ہے کہ نعرہ لگانے والي پي ٹي آئي کي حکومت واقعي تبديلي لے آئي ۔۔۔۔۔۔ سب سے پہلے تبديلي کے اثرات شہر
قائد پر پڑے ۔۔۔ کيوں نہ پڑتے کيوں کہ يہاں تو تبديلي کا گانا گا کرسندھ کے گورنرکامنصب سنبھالنےوالے بڑے صاحب اورکراچي کي شاہراہ بند کرنے کے احکامات دينے والے داندان ساز ملک کے صدر جو ٹھرے۔۔۔۔رہي سہي کسر کراچي ميں مائي باپ جماعت کے ميئر نے اپنا حصہ ڈال کر پوري کردي۔۔۔۔۔
جب سے ہوش سنبھالا کراچي کے قلب ميں واقع ايمپريس مارکيٹ کو اسي طرح ديکھا۔۔ جہاں ہزاروں افراد اپنا روزگار حاصل کرتے تھے،، ((( قطعي نظر کہ يہ ناجائز جگہ تھي يا نہيں ))) اگر ناجائز تھي تو کون تھا جو اسکي سرپرستي کرتا تھا ؟؟؟؟ اتنے سال بعد کيوں خيال آيا کہ ايمپريس مارکيٹ سے تجاوزات کا خاتمہ کيا جائے؟؟؟؟ اور يہ صرف کراچي ميں ہي اتنے بڑے پيمانے پرکيوں کيا جارہا ہے؟؟؟؟ پہلے لياري اور کھارادر ميں فساد کراکے وہاں کي پراپرٹي کي ويليو کم کرائي گئي اور اب پوري ساحلي پٹي کو کسي کي آشيرباد پرختم کرنے کي سازش کي جارہي ہے۔۔۔
بظاہر چھوٹے پيمانے پر شروع ہونے والا تجاوزات کے خلاف آپريشن کا دائرہ کار پورے کراچي ميں پھيل گيا ہے۔۔۔ آپريشن کرنا اچھا اقدام ہے مگر يہ خيال اب کيوں آيا ؟؟؟ کيا انکو متبادل جگہ فراہم کي گئي ؟؟؟؟؟ کراچي چڑيا گھر،گلشن اقبال،ناظم آباد،طارق روڈ،مليراورموٹر سايئکل کي خريدوفروخت کے ليئے مشہور اکبرمارکيٹ سميت ہر جگہ تجاوزات کو مسمار کرديا گيااوراب علم و ادب کے مرکزتاريخي اردو بازار کے خلاف آپريشن کا آغاز کرديا گيا
يہاں سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ تجاوزات کے خلاف آپريشن ميں کسي کو بحريہ ٹاون کے پروجيکٹ کيوں نظر نہيں آئے؟؟؟؟ بلاول ہاوس کے اطراف کي سڑکيں کيوں دکھائي نہيں ديتي ؟؟؟؟ کينجھر جھيل سے کے فور کا منصوبہ پورا کا پورا پاني بحريہ ٹاون منتقل کيا جارہا ہے ۔۔ کيا سو رہے ہيں وہ لوگ جو دوکان کا چھپرا نکلنے پر پہنچ جاتے ہيں کہ يہ تجاوزات ہے تو انھيں يہ سب کيوں نظر نہيں آرہا ؟؟؟؟؟ کيوں بحريہ ٹاون کے مالک کوباقائدہ عدالت ميں بلا کر کليئر کيا جارہا ہے؟؟؟ طارق روڈ پر بحريہ ٹاون نے سروس روڈ کو بند کرکے برابر ميں پارکنگ پلازہ سے لنک کيا ہوا ہے کسي کو نظر کيوں نہيں آتا ؟؟؟ اس ليئے کہ بحريہ ٹاون کے پاس عدالتوں کا سامنا اورايجنسيوں کو منہ دينے والے بڑے بڑے وکيل، جج اور ريٹائرڈ سيکيورٹي افسران کي پوري فوج ہے ۔۔۔ کسي کو ڈالميا پر قائم سينما کيوں نظرنہيں آتا ؟؟؟؟؟ شاہراہ فيصل پر ميک ڈونلڈ کھول ديا گيا کيا اس سے پارکنگ متاثر نہيں ہوتي ؟؟؟؟؟ کيوں بولا نہيں جارہا ؟؟؟؟؟
لاکھوں گھروں اورنوکريوں کا خواب دکھانے والے ۔۔۔ قوم پر نازل کيئے گئے يوٹرن بابا نے کہا تھا ((( ميں تم کو رلاوں گا ))) آج کراچي ميں ہر شہري رو رہا ہے ۔۔ ((آئي ايم ايف)) کے کہنے پر مہنگائي کا طوفان،روپے کي قدر ميں کمي ،گيس لوڈ شيڈنگ اور اب مني بجٹ مسلط کيا جارہا ہے ۔۔۔ وزيراعظم بھينس،کار کو نيلام کرکے اس سے ملک کو خوشخال کرنے نکلے ہيں۔۔ اورتو اور پڑوسي ممالک سے امداد ليکر قوم کو خوشخبري ديتے ہيں کہ ہم نے اہداف حاصل کرليئے ہيں ۔۔
سونے پر سہاگہ ميڈٰيا انڈسٹري جس کو اہم ستون سمجھا جاتا ہے ۔۔اسي ستون کي بدولت مشرف کو حکومت چھوڑني پڑي اب وہي قوتيں ميڈيا کو بند کرانے پر تلي ہوئي ہيں جس ميں مالکان انکا بھرپورساتھ دے رہے ہيں۔۔۔ ويسے تو وزيراعظم نے اپني دور حکومت ميں بے تحاشا اصطلاح نکالي جيسے (( يوٹرن لينے والا بڑا ليڈر ہوتا ہے )) (( مدينہ کي رياست )) مرغي کا کاروبار وغيرہ وغيرہ ۔۔۔۔
مگرآج کل ميڈيا انڈسٹري کے لوگ ۔۔۔ نوکري يافتہ بے روزگار ہيں جي ہاں عجيب لگا ہوگا کہ نوکري يافتہ بے روزگار ؟؟؟؟۔۔ بے روزگار وہ ہوتا ہے جس کے پاس کوئي زريعہ معاش نہ ہو ۔۔ مگر کيا کہنے موجودہ حکومت کے ۔۔ ميڈيا انڈسٹري ميں کام کرنے والے ملازمين تين تين ماہ سے بے روزگار کي سي زندگي گزارنے پر مجبور ہيں ۔۔ ستم ظريفي يہ کہ بے چارے نہ سيلري کا مطالبہ کرسکتے ہيں نہ اپنے خيالات سوشل ميڈيا پر ڈال سکتے ہيں ۔۔۔ منيجمنٹ کو تنخواہ کا بوليں تو وہ يہ جواب نہيں ديتے کہ سيلري کب ملے گي بلکہ يہ جواز پيش کرتے ہيں ميڈيا کے حالات بہت خراب ہيں ديکھيں فلاں چينل سے اتنے بندے فائر کرديئے گئے وہاں سے يہ ہوگيا وغيرہ وغيرہ يعني عام فہم ميں ٹوپي ڈرامے ۔۔۔ کوئي ان کو يہ بتانے کي کوشش کرے کہ فلاں چينل ميں بونس اور ٹائم پر سيلري بھي ملتي ہے اسکي مثال کيوں نہيں ديتے تو آئيں بائيں شائيں کرکے نکل جائے ہيں
ميڈٰيا کے يہ حالات ہيں آئے روز يہ سننے کو ملتا ہے فلاں ادارے سے اتنے لوگ فائر کرديئے گئے،فلاں سے سيلري کوکم کرديا گيا ۔۔فلاں جگہ تين ماہ بعد آدھي سيلري دي گئي،فلاں جگہ لسٹ تيارکرلي گئي وغيرہ وغيرہ ۔۔ ہر ادارے ميں اعلي عہدوں پر فائز لوگوں کو رکھا اسي ليئے جاتا ہے کہ وہ منيجمنيٹ کا مقدمہ لڑيں نہ کہ ملازمين کا ۔۔ جب اعلي عہدوں پر فائز لوگوں سے ملازمين سيلري کا مطالبہ کرتے ہيں تو وہ صرف ملازمين کے جذبات اور احساسات سے کھيلتے نظر آتے ہيں ۔۔ جان بوجھ کر انکي شفٹ تبديل کي جاتي ہيں، انکي ٹائمنگ چيک کي جاتي ہے ۔۔ دو منٹ اور پانچ منٹ بھي کم ہوں تو سيلري کاٹ لي جاتي ہے ۔۔ جي ہاں جہاں تين ماہ کي سيلري نہ ملے اور جب آپ کي سيلري دوہزار تو کبھي چار ہزار کاٹ کر دي جائے تو سوچيں دل سے کيسي بددعا نکلتي ہوگي
آپ کو ميڈيا انڈسٹري سے اتنا ہي غصہ ہے تو جامعات ميں ماس کميونيکيشن اور آئي آر ڈيپارٹ بھي بند کرديں۔۔ اعلان تو آپ کے قابل وزيراطلاعات کرہي چکے ہيں کہ ميڈيا انڈسٹري کو چھوڑ کر کہيں اور زريعہ معاش ڈھونڈيں ۔۔ حالانکہ موصوف بے روزگاري ميں نجي چينل ميں اينکر کے منصب پر بھي رہ چکے ہيں ۔۔۔سوال يہ ہے کہ جس نےاپني زندگي کے تيس تيس سال اس صحافت ميں گزار ديئے اسکو نوکري سے نکال ديں تو وہ کيا کرے گا ؟؟؟ کوئي جواب ہے مدينہ کي رياست کا دعوي کرنے والے وزيراعظم کے پاس ؟؟؟؟؟؟ يہ وقت بھي گزر جائے گا مگر جس طرح موجودہ حکومت کو استعمال کيا گيا وہ پانچ سال بعد ياد رکھے گے کہ ہمارا ساتھ ہوا کيا اورجو انکو اقتدار ميں لائے وہ بھي اللہ کي پکڑ سے بچ نہيں پائيں گيں
No comments:
Post a Comment