Wednesday, May 25, 2011

ہوشیار ! اب پاکستان کی باری ہے








دو مئی کا دن شاید پاکستان کی سلامتی ہر ایک بھیانک خواب سے کم نہ تھا جہاں امریکہ سے آئے دو ہیلی کاپٹرپاکستان کی فضائی حدود کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے داخل ہوئے اور پھر پوری دنیا میں خطرے کی علامت سمجھے جانے والے اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد کے کمپاونڈ میں ایک چالیس منٹ کے مختصر آپریشن کے بعد ہلاک کردیا گیا اور یہ کہا جاتا ہے کہ وہ گزشتہ پانچ سال سے ایبٹ آباد کے علاقے میں موجود تھے ۔۔۔۔۔۔ واہ یہ ایک فلم کہانی تو معلوم ہوتی ہے مگر حقیقت سے اسکا کوئی تعلق نہیں لگتا ۔ اب خود امریکہ کا میڈیا اور تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ اسامہ بن لادن تو تورا بورا میں مارا گیا ہے اور یہ آپریشن صرف براک اوبامہ نے آپنے آنے والے انتخابات کی وجہ سے کیا ۔ اور خود ہمارے سابقہ عسکری ذرائع بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ اسامہ بن لادن مارے جاچکے ہیں اور امریکہ کا اصل ہدف اب پاکستان ہے جہاں وہ اس طرح کی کاروائی کرکے یہ تاثر دینا چایتا ہے کہ پاکستان کی سیکورٹی ایجنسیاں اور عسکری قیادت کے بس میں کچھ نہیں ہے اور انکی یہ صلاحیت نہیں کہ وہ اپنے اثاثوں کی حفاظت کرسکے ۔۔


اور امریکہ اپنی اس پالیسی پر کافی حد تک کامیاب ہوچکا ہے ۔ جس کا مظاہرہ اس نے ایبٹ آباد میں آپریشن کیا اور پھر اسی چال چلی کہ چت بھی اسکا اور پٹ بھی ۔ اگر ہماری عسکری قیادت یہ بات تسلیم کرے کہ ہمیں اس بات کا پتہ تھا کہ اسامہ پاکستان میں ہے تو اسکا مطلب یہ تھا کہ پاکستان خود بن لادن کی سپورٹ کر رہا تھا اور اگر انکار کرے تو پھر دنیا میں نمبر ون مانے جانے والی آئی ایس آئی کی سیکورٹی کے دعوؤں کی پول کھل جاتی ہے اور یہ ہی امریکہ چاہتا تھا کہ خود آئی ایس آئی یہ تسلیم کرے کہ وہ نہ اہل ہے اور یہ بیان خود آئی ایس آئی کے سربراہ شجاع پاشا نے تسلیم کیا کہ ہاں ہم سے غلطی ہوئی ہے اور جو سزا دینا چاہیئں وہ قبول ہے ۔۔۔۔ میں ایک بات یہاں برملا کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں اپنی فوجی قیادت پر بھرپور اعتماد ہے مگر یہ بیان انکا نہیں یہ تو شجاع پاشا نے سب کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی مگر اسکے پس پردہ کیا حقائق ہیں یہ کوئی نہیں بتاتا ۔ اب وقت آگیا ہے کہ تمام حقائق سامنے لائے جائیں ۔ جب ہمارے عسکری ذرائع برملا کہتے ہیں کہ ہم ڈرون طیارے گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو وہ کیا وجوہات ہیں جو یہ صلاحیت رکھنے کے باوجود نہیں گراتے ۔۔؟ اس طرح کے بہت سے سولات ہیں جو اب قوم جاننا چاہتی ہے اگر یہ ہمارے نام نہاد جمہوری حکومت اجازت نہیں دیتی ؟ یا ان کی کوئی ڈیل ہے امریکہ سے ؟ کیوں کہ امریکہ تو برملا کہتا ہے کہ ہم ایبٹ آباد طرز کی کاروایئاں پہلے بھی کرچکے ہیں پاکستان میں تو اسکا کیا مطلب ہے ؟ ان سولات کا جواب ہمارے حکمران کیوں نہیں دیتے ؟ اگر ہمارے ملک میں کچھ ہو تو ہمارے وزراء بڑے دعوے کرتے ہیں کہ ہم دہشت گردوں کو نیست و نابود کردیں گیں مگر امریکہ جو سب کھلم کھلا کررہا ہے اس کو کیوں نہیں کہہ سکتے ؟ اس لیئے کہ ڈالر ملتے ہیں ہمیں ؟ اگر ہم ڈالر کے لیئے اپنے لوگوں کا سودا کرسکتے ہیں تو ہمارے نام نہاد حکمران کہیں اپنی سالمیت اور تنصیبات کو بھی ڈالر کے عوض بیچ نہ دیں ؟ اب میں امریکہ کی وہ پالیسی بتا رہا ہوں جو وہ پاکستان کے خلاف بھرپور اور منظم طریقے سے کررہے ہیں اور خاص طور پر ریمنڈ ڈیوس کے جانے




کے بعد ڈرون حملوں میں شدت اور ایبٹ آباد میں اسامہ کا واقعہ اور پھر گزشتہ ایک ماہ کے دوران
نيوي کے جوانوں پر دہشت گردوں کے حملے کے حوالے سے نگاہ ڈالي جائے تو ہمیں یہ اعداد و شمار ملتے ہیں جو متواتر پاک بحریہ پر کیئے جارہے ہیں 26 اپريل 2011 کو کراچي کے علاقے بلديہ ٹاون اور ڈيفنس ميں پاک بحريہ کي بسوں پر يکے بعد ديگر حملے سے چار لوگ ہلاک جبکہ 60 کے قريب زخمي ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں ميں پاک بحريہ کي ليڈي ڈاکٹرسميت دو اہلکار اور ايک راہگير شامل تھے۔ اس حادثے کے بعد
28 اپريل کو کارساز پر پي ايف ميوزيم کے قريبي پيٹرول پمپ پر پاک بحريہ کي بس کو ايک بار پھر نشانہ بنايا گيا ۔ جس ميں 5 افراد ہلاک اور 18 زخمي ہوئے تھے۔ پاکستان بحريہ پر ہونے والے ان حملوں سے ابھي شہر سنبھل بھي نہ پايا تھا کہ 22 مئي کي رات کو پي اين ايس مہران پر دہشت گردوں نے دھاوا بول ديا۔ دھماکے کے بعد ہونے والے آپريشن ميں شہر گوليوں کي آواز سے گونج اٹھا۔ فائرنگ کا نہ ختم ہونے والا يہ سلسلہ اگلے دن پونے چار بجے اختتام پزير ہوا۔ اس تمام کاروائي ميں جہاں دو پي سي تھري اورين طياروں کا نقصان ہوا وہيں قيمتي جانيں بھي ضائع ہوئيں۔ دفاع وطن کي خاطر پاکستان نيوي کے جوانوں نے دہشت گردوں کخيلاف ڈٹ کرمقابلہ کيا اورمہران بيس ميں موجود مزيد جہازوں کو تباہ ہونے سے بچايا آپريشن کے دوران سيکورٹي فورسز کے 10 جوانوں نے جام شہادت نوش کيا ۔ ان سب واقعات میں صرف یہ اشارے ملتے ہیں کہ امریکہ اب یہ کہنا چارہا ہے کہ تمھارے اثاثے محفوظ ہاتھوں میں نہیں اور یہ بہانہ بنا کر وہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے امریکہ نے بڑی چالاکی سے ہماری فوج کو اپنے ہی علاقوں میں آپریشن کے زریعے اپنے ہی لوگوں سے لڑوایا جس کا خمیازہ ہمیں بھاری قیمت میں چکانا پڑا اور اب تک ہم بھگت رہے ہیں کب تک ہم امریکہ کے اشاروں پر ناچتے رہیں گیں ؟ اب اس بات کی ضرورت ہے کہ تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں اور موجودہ اور سابقہ عسکری قیادت مل کر اپنی ایک جامع پالیسی بنائے اور اس دفعہ میڈیا اور قوم کے سامنے متفقہ طور پر ایک پالیسی بیان جاری کریں اگر اب بھی ہم نے سخت موقف نہ اپنایا تو پھر ایک اور ایبٹ آباد آپریشن اور سانحہ پی این ایس مہران جیسے واقعات ہمارے ملک کا مقدر بنتے رہیں گیں ۔ اللہ ہماری فوج کو سازشوں اور باطل قوتوں کے شر سے بچائے آمین